شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فراق گورکھپوری

  • غزل


رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی


رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی
وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی

یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ
مسافروں سے کہو اس کی رہ گزر آئی

فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی

کہیں زمان و مکاں میں ہے نام کو بھی سکوں
مگر یہ بات محبت کی بات پر آئی

کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی
امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی

کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا
کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

دلوں میں آج تری یاد مدتوں کے بعد
بہ چہرۂ متبسم بہ چشم تر آئی

نیا نہیں ہے مجھے مرگ ناگہاں کا پیام
ہزار رنگ سے اپنی مجھے خبر آئی

فضا کو جیسے کوئی راگ چیرتا جائے
تری نگاہ دلوں میں یوں ہی اتر آئی

ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

ترا ہی عکس سرشک غم زمانہ میں تھا
نگاہ میں تری تصویر سی اتر آئی

عجب نہیں کہ چمن در چمن بنے ہر پھول
کلی کلی کی صبا جا کے گود بھر آئی

شب فراقؔ اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد
کہوں یہ کیسے تری یاد رات بھر آئی

ویڈیو
This video is playing from YouTube Videos
This video is playing from YouTube نامعلوم

Leave a comment

+