شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعجازالحق شہاب

  • غزل


بدن کی قبر میں خوابوں کی لاش ہے میں ہوں


بدن کی قبر میں خوابوں کی لاش ہے میں ہوں
قدم قدم پہ ہی فکر معاش ہے میں ہوں

زمانے بھر میں تو یہ راز فاش ہے میں ہوں
مگر مجھے تو مری ہی تلاش ہے میں ہوں

ہر ایک ضرب نئے تجربے اکیرے ہے
حیات ہے کہ کوئی سنگ تراش ہے میں ہوں

لگیں گی بولیاں جنت کی اب سر بازار
بکے گی خلد بریں اف وناش ہے میں ہوں

جو وقت ماضی میں گزرا ہے کاش رک جاتا
لبوں پہ آج فقط لفظ کاش ہے میں ہوں

ہر اک قدم پہ نئی حسرتیں پنپتی ہیں
نہ جانے کیسا یہ اک موہ پاش ہے میں ہوں

کیوں لمحہ لمحہ ہی بڑھتی ہی جا رہی ہے شہابؔ
یہ گزرے وقت کی کیسی خراش ہے میں ہوں


Leave a comment

+