شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعجازالحق شہاب

  • غزل


ایک اک پل میں سنو سینکڑوں غم کاٹتے ہیں


ایک اک پل میں سنو سینکڑوں غم کاٹتے ہیں
زندگی کٹتی کہاں ہے اسے ہم کاٹتے ہیں

مل کے رہتے ہیں وطن میں سبھی ہمسائے مگر
اس محبت کو سیاست کے ادھم کاٹتے ہیں

گلشن دہر کے ہر گل سے مہکتا گلشن
مل کے ہم آئیے نفرت کے الم کاٹتے ہیں

عالم ہجر میں ہیں وصل کی یادوں کے چراغ
انہیں یادوں سے ترے ہجر کا غم کاٹتے ہیں

ہم نے جو کی تھی وفا وہ ہی وفا جرم ہوئی
دیکھیے اس کی سزا کتنے جنم کاٹتے ہیں

پاک رکھا ہے تخیل کو عبادت کی طرح
اتنی جدت سے تبھی شعر کا ضم کاٹتے ہیں

عمر گزری ہے شہابؔ اپنی جفاؤں کے تئیں
دل کو رہ رہ کے جفاؤں کے ستم کاٹتے ہیں


Leave a comment

+