شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر شہزاد

  • غزل


ترے ہاتھ پہ کھیتوں کی مٹی مرا موتیوں والا جامہ


ترے ہاتھ پہ کھیتوں کی مٹی مرا موتیوں والا جامہ
کل چنتے ہوئے سرسوں تو نے کیوں میرا دامن تھاما

اصرار نہ کر ضد چھوڑ سکھی جاتی ہوں پیا سے ملنے
لے باندھ کلائی پر گجرے لے ڈال گلے میں نامہ

وہی آ کے براجے آنگن میں وہی ساجے ندی کے تٹ پر
وہی بھینسیں چرائے بیلوں میں وہی چرواہا وہی کاما

اوراق سجن سنجوگ کتھا ادراک سوئمبر سکھیاں
کویراج تم اپنی کویتا کا بن باس رکھو سرنامہ

کہیں گھونگھٹ کے پٹ کنہائی کہیں بستی میں رسوائی
کہیں ہونٹ کی کھونٹ پہ مرلی کی دھن کہیں ہردے میں ہنگامہ


Leave a comment

+