شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناز قادری

  • غزل


پھر سیہ پوش ہوئی شام نظر میں رکھنا


پھر سیہ پوش ہوئی شام نظر میں رکھنا
تم یہ بے دردیٔ ایام نظر میں رکھنا

میں نے باطل سے کبھی صلح نہیں کی لوگو
میری حق گوئی کا انعام نظر میں رکھنا

خوب ہے درد و غم دل کا مداوا لیکن
خود کو بھی اے دل ناکام نظر میں رکھنا

ٹھوکریں کھا کے سنبھلتے ہیں سنبھلنے والے
یہ جو پتھر ہیں بہ ہر گام نظر میں رکھنا

امتحاں گاہ محبت سے گزرنے والو
روز عاشورہ کا ہنگام نظر میں رکھنا

کعبۂ فن کی کشش کھینچ رہی ہے دل کو
فکر کب باندھے گی احرام نظر میں رکھنا

انتساب غم ہستی کے لیے اب اے نازؔ
خوبصورت سا کوئی نام نظر میں رکھنا


Leave a comment

+