شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دیا جیم

  • غزل


جیسا کہتا ہے تو ویسا نہیں کرنے والی


جیسا کہتا ہے تو ویسا نہیں کرنے والی
اب ترے ساتھ میں اچھا نہیں کرنے والی

ایسے دیکھو نا محبت کا گماں ہوتا ہے
وعدہ لینا ہے تو وعدہ نہیں کرنے والی

مجھ سے واقف ہو تو انکار یہ کرتے کیوں ہو
مان لو پیار کو رسوا نہیں کرنے والی

مرے آنگن کے سبھی پھول بہت مہنگے ہیں
اپنے گلشن کو میں صحرا نہیں کرنے والی

تو مجازی ہے حقیقی تو نہیں ہے میرا
سو ترے عشق میں سجدہ نہیں کرنے والی

میری فطرت میں محبت ہی فقط گوندھی گئی
اپنی فطرت سے کنارہ نہیں کرنے والی

چاند آنکھوں میں لئے پھرتی ہوں میں آج دیاؔ
اشک پلکوں کا ستارہ نہیں کرنے والی


Leave a comment

+