رنگ خاکے میں نیا بھر دوں گا میں
دشمنوں سے دوستی کر لوں گا میں
پھر نہیں آنے کا خوابوں میں ترے
شہر سے تیرے اگر جاؤں گا میں
میں بہت ضدی ہوں لیکن جان من
تو بلائے تو ضرور آؤں گا میں
ہے تضادوں کا چمن میرا وجود
فصل گل کا مرثیہ گاؤں گا میں
کانچ کے الفاظ کاغذ پر نہ رکھ
سنگ معنی بن کے ٹکراؤں گا میں
راستے کے واسطے اک جام دو
نیم شب ہے اب تو گھر جاؤں گا میں
Leave a comment