شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

رؤف امیر

  • غزل


ہوا کی چادر صد چاک اوڑھے جا رہے ہیں


ہوا کی چادر صد چاک اوڑھے جا رہے ہیں
سوارو کس طرف منہ زور گھوڑے جا رہے ہیں

ہمیں بھی یاد کر لینا جب ان پر پھول آئیں
ہم اپنا خون پودوں پر نچوڑے جا رہے ہیں

ثمر تو کیا شجر پر کوئی پتہ بھی نہیں ہے
مگر ہم ہیں کہ شاخوں کو جھنجھوڑے جا رہے ہیں

یہ کس صبح حقیقت میں کھلی ہے آنکھ میری
کہ تیرے خواب بھی اب ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں

میں کس دکھ سے اکیلے دیکھتا جاتا ہوں ان کو
فضا میں پنچھیوں کے چند جوڑے جا رہے ہیں

وہ جس کی امن کی بنیاد پر تعمیر کی تھی
امیرؔ اس شہر جاں میں ظلم توڑے جا رہے ہیں


Leave a comment

+