شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فاروق انجینئر

  • غزل


یہ بات الگ دل کو تری یاد نے باندھا


یہ بات الگ دل کو تری یاد نے باندھا
اس صید کو ورنہ کہاں صیاد نے باندھا

کوچہ یہ کوئی اور ہی آباد کرے گا
سامان جو اب کے دل برباد نے باندھا

اس شہر کو اب چھوڑ کے کیا جاؤں کہ مجھ کو
روکا ہے کسی آہ نے فریاد نے باندھا

جو اس کی طلب ہے وہی اب میری طلب ہے
کس سحر سے مجھ کو مرے ہم زاد نے باندھا

ہموار ہوئی راہ نہ رستہ ہی کھلا ہے
بازو سے تو تعویذ بھی افراد نے باندھا

اک کوہ گراں توڑ دیا پر نہیں توڑا
پیمان وفا جب کسی فرہاد نے باندھا

شاگرد کے اب شعر سے ہوتا ہے بر آمد
مضمون بہت پہلے جو استاد نے باندھا

فاروقؔ نظر ہو گئی مرکوز اسی پر
کیا خوب اداؤں سے پری زاد نے باندھا


Leave a comment

+