شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمینہ اسلم ثمینہ

  • غزل


بظاہر تو پرایا بھی نہیں ہے


بظاہر تو پرایا بھی نہیں ہے
وہ اپنا ہو کے بھی اپنا نہیں ہے

مرے لب سے ہنسی چھینی تھی جس نے
سنا ہے وہ بھی اب ہنستا نہیں ہے

مری آوارگی پہ راستوں نے
مجھے پوچھا کوئی تیرا نہیں ہے

زمانہ منتظر ہے اس لہو کا
جو میری آنکھ سے ٹپکا نہیں ہے

مجھے تو خوف اپنے آپ سے ہے
کسی سے ڈر مجھے لگتا نہیں ہے

ہوا جو سو ہوا اب چھوڑ بھی دو
بہت بھی سوچنا اچھا نہیں ہے

خطا اپنی بھی مانو کچھ ثمینہؔ
اسی کا دوش تو سارا نہیں ہے


Leave a comment

+