شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حسن رضوی

  • غزل


کھلنے لگے ہیں پھول اور پتے ہرے ہوئے


کھلنے لگے ہیں پھول اور پتے ہرے ہوئے
لگتے ہیں پیڑ سارے کے سارے بھرے ہوئے

سورج نے آنکھ کھول کے دیکھا زمین کو
سائے اندھیری رات کے جھٹ سے ہرے ہوئے

مل کر کریں وہ کام جو پہلے کئے گئے!
عرصہ ہوا ہے کام بھی ایسے کرے ہوئے

کیسی عجیب رت ہے پرندے گھروں سے اب
نکلے نہیں ہیں خوف کے مارے ڈرے ہوئے

آتا ہے روز خواب میں وہ پیکر جمال
آنکھوں کی گاگروں کو حیا سے بھرے ہوئے

پھر سے کسی پہ ظلم کسی نے کیا ہے آج
دیکھے ہیں گھونسلوں میں پرندے مرے ہوئے

مشعل لئے ہوئے کوئی آئے گا اب حسنؔ
بیٹھے ہیں کب سے طاق میں آنکھیں دھرے ہوئے


Leave a comment

+