شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قاضی احتشام بچھرونی

  • غزل


یوں بھی ہوتی ہے سخاوت اس کا اندازہ نہ تھا


یوں بھی ہوتی ہے سخاوت اس کا اندازہ نہ تھا
بھیک اس گھر سے ملی جس گھر کا دروازہ نہ تھا

شکریہ تیرا نگاہ ناز تیرا شکریہ
منتشر اس طرح اپنے دل کا شیرازہ نہ تھا

اب نہ مستقبل عیاں ہے اور نہ ماضی کے نقوش
وقت کا چہرہ بہت شفاف تھا غازہ نہ تھا

تھی مجھے دنیا سے نفرت تھا مجھے لوگوں سے بیر
آپ پر تو بند میرے دل کا دروازہ نہ تھا

ناپنے آئے تھے مجھ کو غرق ہو کر رہ گئے
دوستوں کو میری گہرائی کا اندازہ نہ تھا

یہ ہوئی عقدہ کشائی در حقیقت بعد مرگ
زیست میدان عمل تھی کوئی خمیازہ نہ تھا

صحن گلشن میں ملی اکثر دوبارہ تازگی
دوستو کنج قفس میں زخم دل تازہ نہ تھا

قیس وہ بتلا رہا تھا خود کو لیکن احتشامؔ
کوئی بھی سنگ ملامت کوئی آوازہ نہ تھا


Leave a comment

+