شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید لکھنوی

  • غزل


ہاتھ سے دل رو کے کھونا یاد ہے


ہاتھ سے دل رو کے کھونا یاد ہے
اپنی کشتی کو ڈبونا یاد ہے

منہ چھپا کر مجھ کو رونا یاد ہے
وہ خجل ہر اک سے ہونا یاد ہے

ہجر میں وہ جان کھونا یاد ہے
صبح ہونا شام ہونا یاد ہے

مرتے مرتے ہاتھ سینہ پر رہے
درد کا تھم تھم کے ہونا یاد ہے

کیوں جہاں میں آئے تھے سمجھے نہ کچھ
ان کا ہنسنا اپنا رونا یاد ہے

جاگنا اپنا نہیں بھولا ہوں میں
اور سارے گھر کا سونا یاد ہے

مرتے دم دنیا نہایت تنگ تھی
قبر کا وہ ایک کونا یاد ہے

کون تھا بالیں پہ مست خواب ناز
شمع کا رخصت وہ ہونا یاد ہے

دل میں پانی نے لگا دی آگ آج
وہ حنائی ہاتھ دھونا یاد ہے

کب نہ تھا جاویدؔ آہوں میں اثر
پھیر کر منہ ان کا رونا یاد ہے


Leave a comment

+