شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فاروق ارگلی

  • غزل


ملتیں جب جادۂ حق سے گریزاں ہو گئیں


ملتیں جب جادۂ حق سے گریزاں ہو گئیں
جانے کتنی بستیاں شہر خموشاں ہو گئی

پستیاں پنجوں کے بل اچھلی تو قیمت بڑھ گئیں
عظمتیں بازار میں پہنچیں تو ارزاں ہو گئیں

ضبط غم کا یہ تماشہ بھی کسی دن دیکھنا
آندھیاں تنکوں سے ٹکرا کر پشیماں ہو گئیں

عزت و ناموس کے دعوے فسانہ بن گئیں
عصمتیں جب خود بھری محفل میں عریاں ہو گئیں

بے حسی خود غرضیاں عیاریاں مکر و فریب
آج کل یہ خوبیاں عزت کا ساماں ہو گئیں

آپ تو خاموش رہ کر بھی بہت کچھ کہہ گئے
رنجشیں جو دل پہ تھیں رخ پر نمایاں ہو گئیں

وہ بھی کیا دن تھے کہ جب آزاد تھے ذہن و ضمیر
اب تو ان باتوں کے گزرے جیسے صدیاں ہو گئیں


Leave a comment

+