شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فرحان سالم

  • غزل


تو مری ابتدا تو مری انتہا میں سمندر ہوں تو ساحلوں کی ہوا


تو مری ابتدا تو مری انتہا میں سمندر ہوں تو ساحلوں کی ہوا
تیری منزل بنے میرا ہر راستا میں سمندر ہوں تو ساحلوں کی ہوا

روز و شب موج در موج ہوں در بدر روز و شب ساحلوں پر پٹکتا ہوں سر
ہاتھ آتا نہیں پھر بھی دامن ترا میں سمندر ہوں تو ساحلوں کی ہوا

میری شوریدگی کے یہ طوفان سب میری خاموشیوں کے یہ ارمان سب
کچھ نہیں اک تری آرزو کے سوا میں سمندر ہوں تو ساحلوں کی ہوا

تو ہی منزل مری تو ہی حد ہے مری تجھ سے وابستگی نامزد ہے مری
تو نہ ہو گر تو میں خود میں کھو جاؤں گا میں سمندر ہوں تو ساحلوں کی ہوا

خوشبوؤں سے تری یہ مہکتا سفر یوں ہی جاری رہے گا مرے اوج پر
تو مسافت مری میں ترا راستا میں سمندر ہوں تو ساحلوں کی ہوا


Leave a comment

+