ساغر نظامی
- غزل
- نغمے ہوا نے چھیڑے فطرت کی بانسری میں
- جو رہین تغیرات نہیں
- نہ کشتی ہے نہ فکر نا خدا ہے
- راتوں کو تصور ہے ان کا اور چپکے چپکے رونا ہے
- ساون کی رت آ پہنچی کالے بادل چھائیں گے
- دوستو درد پلاؤ کہ کڑی رات کٹے
- صدیوں کی شب غم کو سحر ہم نے بنایا
- دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
- آنکھ تمہاری مست بھی ہے اور مستی کا پیمانہ بھی
- پھر رہ عشق وہی زاد سفر مانگے ہے