شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ذوالفقار نقوی

  • غزل


تم جو چھالوں کی بات کرتے ہو


تم جو چھالوں کی بات کرتے ہو
کیوں ہمالوں کی بات کرتے ہو

کس کے ہاتھوں میں تھا نہیں پتھر
شام والوں کی بات کرتے ہو

اپنے چہرے پہ پوت کر کالک
تم اجالوں کی بات کرتے ہو

خشک روٹی تو دے نہیں سکتے
تر نوالوں کی بات کرتے ہو

جو نمک ہیں ہمارے زخموں پر
ان حوالوں کی بات کرتے ہو

چھین کر ہم سے جرأت اظہار
اب سوالوں کی بات کرتے ہو

جسم جن کے ہیں بوجھ روحوں پر
ان جیالوں کی بات کرتے ہو


Leave a comment

+