شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

یاسر خان

  • غزل


بنا ہوا تھا کہیں آب دان کاغذ پر


بنا ہوا تھا کہیں آب دان کاغذ پر
تھی اتنی پیاس کہ رکھ دی زبان کاغذ پر

کرایے دار کی آنکھوں میں آ گئے آنسو
بنائے بیٹھے تھے بچے مکان کاغذ پر

تمہارے خط میں نظر آئی اتنی خاموشی
کہ مجھ کو رکھنے پڑے اپنے کان کاغذ پر

تمام عمر گزاری ہے دھوپ میں شاید
بنا رہا ہے کوئی سائبان کاغذ پر

اٹھا لیا ہے قلم اب تو میں نے بھی یاسرؔ
اتار ڈالوں گا ساری تھکان کاغذ پر


Leave a comment

+