شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

لیث قریشی

  • غزل


بارہا یورش افکار نے سونے نہ دیا


بارہا یورش افکار نے سونے نہ دیا
فکر آزاد ہے آزار نے سونے نہ دیا

بند تھیں دائرۂ خواب میں آنکھیں اپنی
فکر کی گردش پرکار نے سونے نہ دیا

تھی تصور میں نہاں خانۂ دل کی تصویر
رات بھر دیدۂ بے دار نے سونے نہ دیا

مجھ سے تھے بر سر پیکار مرے ذہن و ضمیر
مجھ کو بیدارئ کردار نے سونے نہ دیا

کوئی منظر تھا کہ تھا منظر رنگیں کا فریب
کیا کہیں خواب پر اسرار نے سونے نہ دیا

مجھ پہ اس طرح سے روشن تھی حقیقت اپنی
عمر بھر چشم خبردار نے سونے نہ دیا

میں نے کچھ دھوپ میں جلتے ہوئے چہرے دیکھے
پھر مجھے سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا

رات بھر بارش الہام رہی ہے دل پر
صبح تک ابر گہر بار نے سونے نہ دیا

لیثؔ موضوع سخن فکر بشر تھی ہم تھے
اور پھر گرمئ گفتار نے سونے نہ دیا


Leave a comment

+