شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثاقب کیف

  • غزل


قید رکھ کر اسے آزاد کیا ہے میں نے


قید رکھ کر اسے آزاد کیا ہے میں نے
وقت کس کھیل میں برباد کیا ہے میں نے

ڈھونڈھتی ہے وہ کہیں اور ٹھکانہ اپنا
وہ محبت جسے ایجاد کیا ہے میں نے

گھر سے باہر میں کسی سے نہیں ملنے جاتا
اک نگر سوچ میں آباد کیا ہے میں نے

اب جو چاہوں بھی تو میں شاد نہیں ہو سکتا
زندگی کیوں تجھے ناشاد کیا ہے میں نے

کیفؔ فرصت نہیں اتنی کہ پلٹ کر دیکھو
وہ سمجھتا ہے سبق یاد کیا ہے میں نے


Leave a comment

+