شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصرہ زبیری

  • غزل


مقابل ہے جو مرے عکس کے اس آئنے میں ہوں


مقابل ہے جو مرے عکس کے اس آئنے میں ہوں
میں خود پر منکشف ہونے کے نازک مرحلے میں ہوں

خودی کے موڑ پر ہوں آپ ہی میں منتظر اپنی
تعارف کی نئی منزل کے پہلے راستے میں ہوں

کشش تیری سہی گردش مری اپنی ہے اے محور
ترے ہی گرد ہوں لیکن میں اپنے دائرے میں ہوں

ابھی اس روشنی کی اصلیت کا راز مت کھولو
ابھی میں چاندنی کے پر فسوں حیرت کدے میں ہوں

تسلسل ساتھ ہے میرے مجھے تبدیل کرنے کا
ازل سے جاری و ساری فنا کے سلسلے میں ہوں

سفر میں چل رہا ہے خوف سا آپس میں لٹنے کا
یہ کیسی راہ پر ہوں میں یہ کیسے قافلے میں ہوں

ابھی ترک تعلق کے کسی برزخ میں ہے وہ بھی
ابھی محفوظ ہے جو میں بھی ایسے فیصلے میں ہوں

ہوا نے یوں تسلی دی ہے اکثر ریت نگری کو
ادھر آئیں گے آخر بادلوں سے رابطے میں ہوں

زمینی مشکلوں کے حل کی فرصت ہی کہاں مجھ کو
بہت الجھی ہوئی اک آسمانی مسئلے میں ہوں


Leave a comment

+