شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

رئیس فروغ

  • غزل


فضا ملول تھی میں نے فضا سے کچھ نہ کہا


فضا ملول تھی میں نے فضا سے کچھ نہ کہا
ہوا میں دھول تھی میں نے ہوا سے کچھ نہ کہا

یہی خیال کہ برسے تو خود برس جائے
سو عمر بھر کسی کالی گھٹا سے کچھ نہ کہا

ہزار خواب تھے آنکھوں میں لالہ زاروں کے
ملی سڑک پہ تو باد صبا سے کچھ نہ کہا

وہ راستوں کو سجاتے رہے انہوں نے کبھی
گھروں میں ناچنے والی بلا سے کچھ نہ کہا

وہ لمحہ جیسے خدا کے بغیر بیت گیا
اسے گزار کے میں نے خدا سے کچھ نہ کہا

شبوں میں تجھ سے رہی میری گفتگو کیا کیا
دنوں میں چاند ترے نقش پا سے کچھ نہ کہا


Leave a comment

+