شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جان کاشمیری

  • غزل


جہد پیہم کے حسیں خبط کو سر میں رکھنا


جہد پیہم کے حسیں خبط کو سر میں رکھنا
پاؤں تھک جائیں تو سوچوں کو سفر میں رکھنا

رفتہ رفتہ وہی بن جاتا ہے گھر کا مالک
کار دشوار ہے مہمان کو گھر میں رکھنا

میں خطا کار خطا ہے مری پہچان مگر
وصف انساں ہے فرشتوں کو نظر میں رکھنا

عزم منزل نہ کہیں بوجھ تلے دب جائے
زاد رہ حسب ضرورت ہی سفر میں رکھنا

بجھتے بجھتے جو سنا جائے کہانی شب کی
ایسا انجم کوئی آغوش سحر میں رکھنا

پکنے سے پہلے ثمر کوئی زمیں بوس نہ ہو
ایسا انداز‌ نمو تخم شجر میں رکھنا

جان لیوا ہے جو شاخوں پہ مسلط ہے سکوت
حوصلہ خار کا پھولوں کے نگر میں رکھنا


Leave a comment

+