شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

رئیس انصاری

  • غزل


نیند آنکھوں میں جو آتی تو جگانے لگتے


نیند آنکھوں میں جو آتی تو جگانے لگتے
خواب بچوں کی طرح شور مچانے لگتے

رات کو گھر نہیں آتا تو مرے گھر والے
صبح کے وقت مری خیر منانے لگتے

تیرے آ جانے سے پھر آ گئی زخموں پہ بہار
تو نہیں آتا تو سب زخم پرانے لگتے

وہ ہمیں ڈھونڈھ کے اک رات میں گھر لے آیا
ہم اسے ڈھونڈنے جاتے تو زمانے لگتے

قیس جنگل کو اگر چھوڑ کے آ جاتا رئیسؔ
تو مرے شہر کے لڑکے بھی ستانے لگتے


Leave a comment

+