شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قیصر خالد

  • غزل


ڈگمگاتے کبھی قدموں کو سنبھلتے دیکھا


ڈگمگاتے کبھی قدموں کو سنبھلتے دیکھا
راہ الفت پہ مگر لوگوں کو چلتے دیکھا

نفرتیں مل گئیں معصوم دلوں میں اکثر
چاہتوں کو دل سفاک میں پلتے دیکھا

حوصلہ تھا کوئی مقصد یا سلیقہ، اس کو
وقت کے تند تھپیڑوں میں سنبھلتے دیکھا

جن کو پالا تھا بہاروں نے جہاں بھر کی، انہیں
آزمائش کی کڑی دھوپ میں جلتے دیکھا

بے جھجھک چل نہ سکا دشت وفا میں اب تک
رکتے دیکھا کبھی اس شوخ کو چلتے دیکھا

سبزہ و گل پہ ہوا رکھتی ہے شبنم لیکن
پھر ہوا کو ان ہی قطروں کو کچلتے دیکھا

شہر یا شہر سے باہر نہیں، اپنے گھر میں
ہم نے اقدار زمانہ کو بدلتے دیکھا

آزمائش ہے، اجازت ہے کہ مجبوری ہے
ظلم کو ہم نے یہاں پھولتے پھلتے دیکھا

آتش عشق سے بچئے کہ یہاں ہم نے بھی
موم کی طرح سے پتھر کو پگھلتے دیکھا

اپنے جذبات تو مشہور تھے لیکن ہم نے
تھے جو ہشیار بہت ان کو ابلتے دیکھا

ڈال دی پیروں میں اس شخص کے زنجیر یہاں
وقت نے جس کو زمانے میں اچھلتے دیکھا

بذلہ سنجی پہ بہت ناز تھا جن کو اپنی
ہم نے ان کو بھی یہاں زہر اگلتے دیکھا

روز یہ مشرق و مغرب کا تماشہ کیوں ہے
اگتے دیکھا ہے جسے اس کو ہی ڈھلتے دیکھا

آ گیا یاد وہ بچپن کا زمانہ خالدؔ
جب کہیں پھول سے بچوں کو اچھلتے دیکھا


Leave a comment

+